قومی اتحاد کا خلاصہ مصنف سر سید احمد خان
سر سید احمد خان ہندوستان میں مسلمانوں کے قومی اتفاق اور یک جہتی کے بہت بڑے داعی تھے۔ اپنے اس مضمون " قومی اتفاق" میں کہتے ہیں کہ زمانہ قبل تاریخ سے نظریہ قومیت کی بنیاد نسل اور جغرافیہ پر تھا۔
محمد صلی علیہ وآلہ وسلم نے تمام تفرقہ قومی کو مٹا کر مسلمانوں کا ایک روحانی رشتہ قائم کیا۔ کلمہ توحید کا اقرار کرنے کے بعد ترک، تاجک، افریقی، عربی، چینی، پنجابی اور ہندوستانی تمام لوگ خواہ کالے ہو یا گورے وہ ایک قوم بن جاتی ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں بھی فرماتا ہے " بے شک تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کر اؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے“۔
مگر افسوس یہ ہے کہ ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں مگر یوسف کے سوتیلے بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے حسد، بغض اور دشمنی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ شیطان جو ہمارا ازلی دشمن ہے، جس نے ہمارے باپ آدم کو بھی دھوکہ دے کر جنت سے نکالا تھا۔ ہمارے درمیان بھی نفاق ڈال کر ہمیں صراط مستقیم سے بھٹکاتا ہے اور ہم اُس کے فریب میں آکر نفاق میں پڑ جاتے ہیں حالانکہ سب یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کلمہ توحید کا اقرا ر کرنے والا مسلمان ہے اور جو مسلمان ہے وہ ہمارا بھائی ہے۔
امام اعظم کے مطابق ہمارے قبلے کی طرف نماز پڑھنے والا کو ہم کافر نہیں کہتے۔ تو کس طرح ہم فروعی مسائل میں اختلاف رکھنے والوں کو اللہ کے قائم کردہ رشتہ اخوت سے نکال سکتے ہیں۔ نا اتفاقی نے ہماری قوم کو کمزور کیا ہے۔ قومی ہمدردی، ترقی اور قومی مفادات کو متاثر کیا ہے اس لیے ہمیں قومی ترقی کے لیے عداوت اور نفاق کو چھوڑ کر یکتائی اور یکجہتی اختیار کرنی چاہئیں۔ قومی اتحاد کے لیے ہمارے پاس موجود عقلی و نقلی راہ کی پیروی کرنی چاہئیں۔
انسان کے امور کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق اللہ سے ہے اور دوسرے کا تعلق اپنے جیسے انسانوں سے۔ انسان کے دل، عقیدے اور مذہب کا تعلق اللہ سے ہے۔ ان کو حقوق اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا اثر بندے کی اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ یہ بندے اور اللہ کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں رکھنی چاہئیں۔ اللہ اور رسول صلی ل نکم کو برحق ماننے والوں کے ساتھ دُشمنی نہیں رکھنی چاہئیں بلکہ وہ اللہ کی قائم کردہ اخوت کی رُو سے ہمارے بھائی ہیں۔
ہمیں اللہ اور بندے کے درمیان اُمور میں کسی کے ساتھ دشمنی نہیں رکھنی چاہئیں۔ جو اُمور انسانوں کے اپنے درمیان ہے جیسے کہ آپس کی محبت ، دوستی، مدد، ہمدردی اور جن کا مجموعہ قومی ہمدردی ہے ، ان کو حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ ان سے ہم کو غرض رکھنی چاہئیں۔
حقوق العباد پر عمل کرنے سے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور یہ قومی ترقی کے لیے پہلی منزل بھی ہے۔ روحانی اور کلمہ شریک بھائیوں کے علاوہ وطنی بھائی جو کہ ہمارے بہت سے معاشرتی امور میں ہمارے ساتھ شریک ہیں، ان کے ساتھ بھی محبت ، دوستی، مدد اور بردباری رکھنی چاہئیں کیونکہ ان کے عقیدے کا تعلق اللہ سے ہے مگر اُن امور میں جن کا تعلق انسانوں کے آپس میں سے ہے،
ان میں ان کا ہم پر حق ہے کیونکہ ہمسائے کا خیال رکھنے کا حکم ہمارا مذ ہب بھی دیتا ہے۔ اتفاق کی برکتیں اور خوبیاں لوگوں نے بھی بیان کیے ہیں اور تاریخی واقعات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انفاق کی وجہ سے گھاس کا کمزور تنکا بھی اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور مہذب ملکوں کی اصل طاقت اتفاق کی بدولت ہے۔ موجودہ زمانے میں اتفاق ضروری ہے ترقی کے لیے۔