اردو ادب میں غزل اور تغزل

Educational Site
0

اردو ادب میں غزل اور تغزل

اردو ادب میں غزل اور تغزل

غزل اور تغزل کی اصطلاحیں اُردو شاعری کے لیے نئی نہیں ۔ وہ اتنی ہی پرانی ہیں جتنی کہ خود اردو شاعری۔ اس لیے نہ اُردو شاعری غزل اور تغزل کے لیے اجنبی ہو اور نہ غزل اور تغزل اُردو شاعری کے لیے انجان ! بلکہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ۔ ان کا تو آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اسی لیے اُردو شاعری کے ساتھ غزل اور تغزل کا خیال آتا ہر اور غزل اور تغزل کے خیال کے ساتھ اُس شاعری کی تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ اُردو شاعری کے 

ساتھ غزل اور تغزل کا ربط بہت پرانا ہو کئی سو سال انھوں نے ایک ساتھ گزارے ہیں ۔ اسی لیے اُردو شاعری کو نزل اور تغزل سے الگ کر کے دیکھنے کا بھی خیال بھی نہیں گزرتا ۔ اُردو شاعری پر غزل ل کے اثرات بڑے گہرے اور ہمہ گیر ہیں۔ انھیں اثرات کا ہی نتیجہ ہے کہ اس کا بخصوص مزاج ہو ، اس کی ایک مخصوص نما ہی، اس کا ایک مخصوص ماحول ہو ، خصوص انداز ہر ایک مخصوص آہنگ ہو۔ اور اسی مخصوص فضا، اسی مخصوص اسی مخصوص انداز اور اسی مخصوص آہنگ سے وہ پہچانی جاتی ہے۔

غزل اور تغزل کے اثرات کو اُردو شاعری سے الگ کر لیجیے تو اس میں کیا رہ جاتا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں رہتا ! ۔ کیوں کہ اُردو شاعری کا تقریباً تین چوتھائی سے زیادہ حصہ غزل اور تغزل کے ان اثرات پر ہے۔

بات یہ ہو کہ اُردو شاعری نے غزل اور تغزل کی آغوش میں آنکھ کھولی غزل اور تغزل ہی نے اس کو زندہ رہنے کے گر سکھائے ۔ غزل اور تغزل ہی نے اس کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا ۔ اور اس کی معیت ہی میں اس نے زندگی کی منزلیں طر کیں ۔ اس طرح اُردو شاعری منزل اور تغزل کے ساتھ برسوں تک ہم آہنگ رہی۔ اس قرب اور ہم آہنگی نے منزل اور تغزل کی بنیادی خصوصیات کو اُردو شاعری ہیں اس طرح جذب کر دیا کہ وہ اس کے مزاج کا لازمی جز بن گئیں۔ غزل اور تغزل کا رنگ اُردو شاعری کی طبیعت میں اس 

طرح رچ گیا کہ وہ اس سے عبارت سمجھ لی گئی۔ غزل اور تغزل کی اہمیت کو اسی لیے محسوس کیا گیا۔ اور ہر زمانے میں شعراء غزل اور تغزل کے طرز اظہار اور پیرایہ بیان کو اپنے افکار و خیالات اور جذبات و احساسات کی ترجمانی کا ذریعہ بناتے رہے۔ زندگی کے مختلف اور متنوع موضوعات کو انھوں نے غزل اور 

تغزل کے پیرائے میں پیش کیا۔ پچیدہ سے بچیدہ خیالات کی ترجمانی کے لیے وہ غزل اور تغزل کے پیرائیہ بیان اور طریہ اظہار سے کام لیتے رہے۔ اس طرح غزل اور تغزل کے دامن میں وسعت پیدا ہوتی گئی ۔ لیکن غزل اور تغزل جو عام انداز تھا ، اس کے جو بنیادی اصول تھے ، جو بنیادی خصوصیات تھیں ، ن کو تھیں نہیں لگی۔ موضوعات کے تنوع اور رنگارنگی نے اس انداز کو نہیں بدلا ن اصولوں میں تبدیلی نہیں کی ، ان خصوصیات میں تغیر نہیں ہونے دیا۔ ان سب کو اپنی اپنی اپنی جگہ قائم رکھا۔

یہ غزل اور تغزل کے اثرات کی انتہا تھی ۔ اس صورت حال نے غزل اور تغزل کو اپنی انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔ اور ان کے اثرات عالم گیر ہو گئے۔ سارا با حول اسی رنگ میں رنگ گیا ۔ ساری فضا پر یہ خصوصیات ایک سرخوشی بن کر چھائیں۔ زندگی کے ہر شے ہیں یہ اثرات نظر آنے لگے ۔ ہر چیز میں ان خصوصیات کی جھلک
اپنے آپ کو نمایاں کرنے لگی :


اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غزل اور تغزل کا اثرون دونی رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔ افراد کی وابستگی غزل اور تغزل سے اس طرح بڑھتی گئی کہ وقت کے ساتھ ساتھ غزل او تقتل کے یہ اثرات قومی خصائص کا جزو بن گئے۔ طرح طرح سے ان خصائص کا اظہار ہوتا رہا ۔ بات چیت اور گفتگو تک غزل اور تغزل کے انداز میں ہونے لگی۔ ادب کی مصنف میں غزل اور تغزل کے اثرات رونما ہونے لگے۔ بعض اپنی اصناف تک پر ان کا ا جن کو اس سے بظاہر 

کوئی مناسبت نہیں تھی۔ مثال کے طور پر مرثیہ کی مصنف کیا جا سکتا ہے ۔ مریشے کا غزل سے کوئی تعلق نہیں ۔ اُس کا موضوع اس بات بازت نہیں دیتا کہ اس میں غزل اور تغزل کی خصوصیات کو نمایاں کیا جائے۔ اس کے باوجود یہ خصوصیات اس میں نمایاں کی گئی ہیں۔ ان خصوصیات نے مریے کے موضوع کی رفعت ، بلندی اور ثقاہت کو کم نہیں کیا ہے ۔ بلکہ مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو غزل اور تغزل کی بنیادی خصوصیات نے اس میں تاثر کی شدت کو بڑھایا ہے۔ ائیں اُردو کے سب سے بڑے مرثیہ گو شاعر تھے۔ ان کا دامن بھی ان اثرات سے نہیں بچ سکا ہو۔ ان 

مرثیہ گو شعراء نے گھوڑے اور تلوار تک کو محبوب بنا دیا ، اور ان کے بارے میں بھی کمر دمیں وہی باتیں کہنی شروع کیں جو عام طور پر غزل میں محبوب کے متعلق کہی جاتی ہیں ۔ جدید دور کی منظومات تک پر غزل اور تغزل کا اثر ہوا۔ اقبال ، جوش فیض اور مجاز کی نظمیں بھی ان اثرات سے نہ بچ سکیں ۔ بلکہ ان کی نظموں کے وہی حصے زیادہ موثر اور جان دار ہیں جن میں غزل اور تغزل کی خصوصیات نمایاں ہیں۔ اور ان اثرات کا اظہار اسی 

وقت ہوا ہو جب احساس میں شدت اور تحمیل میں روانی پیدا ہوئی ہے ۔ اسی لیے ان اثرات کا اظہار شعوری اور مصنوعی نہیں معلوم ہوتا ۔ اس کے غیر شعوری اور فطری ہونے کا احساس ہوتا ہو اور اس کا بنیادی سبب صرف یہ ہو کہ غزل اور تغزل کی خصوصیات ہمارے مزاج میں رچی ہوئی ہیں۔ قومی ذہانت اور ملکی فطانت سے ان خصوصیات کو بڑا گہرا ربط ہے۔ اسی لئے غزل اور تغزل کے اثرات میں ایک ہمہ گیری ہر ؟

غزل اور تغزل نے جن لوگوں پر اثر کیا ہو ان کی ذہانت و فطانت کو ایرانی کلچر انی مذاق اور ایرانی روایات سے بڑا گہرا تعلق ہو۔ اسی لیے غزل اور تغزل کے اثرات یں ایک ہر گیری ہو ۔ کیوں کہ خود غزل اور تغزل میں ایرانی کلچر ایرانی مذاق اور ایرانی ایات کے اثرات کو بڑا دخل ہے۔ ایرانی کلچر ایرانی مذاق اور ایرانی روایات ہی کے سائے میں غزل اور تغزل کی نشو و نما ہوئی ہو۔ انھیں سے ان کا خمیر اٹھا ہے۔ چنانچہ اس کلچر اور اس کی 

روایات غزل اور تغزل کی رگ ویو میں اس طرح سرایت کر گئی ہیں کہ ایک کو دوسرے سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ غزل اور تغزیل میں سارا ماحول ایرانی ہر ساری فضا ایرانی ہو ، ساری روایات ایرانی ہیں ۔ ہندستان میں آکر بھی وہ ایرانی ہی رہی ہو۔ ہندستانی تہذیب اور ہندستانی روایات کے اثرات اس نے اس طرح قبول نہیں کیسے جو اس کے ایرانی رنگ کو پس منظر میں ڈال دیتے ۔ ایرانی رنگ اس میں یہ ہر صورت باقی رہا ہے ۔ بلکہ بعضوں کا تو یہ خیال ہو کہ اُردو غزل نے ایرانی روایات کو اپنا کر اور 

مقامی روایات سے چشم پوشی کر کے اپنے آپ کو اصلیت اور حقیقت سے دور کر لیا۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہو کیوں کہ ایرانی روایات جو غزل اور تغزل کا لازمی جزو ہیں ان کو خیر باد کہ کے غزل اور تغزل کی روح کو باقی رکھنا ممکن نہیں تھا ۔ مقامی روایات کو اپنانے کی کوشش کی جاتی تو غزل اور تغزل کو اپنی بنیادی خصوصیات سے محروم ہونا پڑتا ہندی اور بھاشا کے اثرات کو اپنے اوپر طاری کر کے نہ غزل ایک صنف سخن کی 

حیثیت سے باقی رہ سکتی تھی اور نہ تغزل ایک انداز کی طرح زندہ رہ سکتا تھا۔ یہ ایرانی اثرات ہی تھے جنھوں نے غزل کو غزل اور تغزل کو تغزل باقی رکھا۔ یہ ایرانی رنگ کی خصوصیات ہی تھیں جن کے سہارے غزل اور تغزل دونوں اپنی مخصوص راہ
جام زن رہے : یہ ایرانی اثرات کیا تھے اور اس ایرانی رنگ کی کیا خصوصیت تھی؟ اس کا صحیح تصور غزل اور تغزل کو سمجھنے کے لیے از لیس ضروری ہے ۔ کیوں کہ غزل اور تغزل میں رات اور انھیں خصوصیات کی پیدا وار ہیں۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)