اردو پنجاب سے نکلی ہے

Educational Site
0

اردو پنجاب سے نکلی ہے

اردو پنجاب سے نکلی ہے


اُردو پنجابی سے بھی یہ نظریہ پروفیسر حافظ محمود شیرانی صاحب کا ہے ۔ شیرانی کا خیال ہے کہ اردو کا آغاز سرزمین پنجاب سے ہوا ہے۔ شیرانی صاحب نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا کہ اردو نے  سرزمین پنجاب میں جنم لیا۔ جس وقت شیرانی صاحب نے نظریہ پیش کیا تو اس وقت یہ دعوئی وزنی معلوم نہ ہوتا تھا۔ اسی لئے اہل زبان نے اس کی سخت مخالفت کی لیکن جب تحقیق آگے بڑھی تو شیرانی صاحب کے ایس دھونے کی تائید میں کئی ثبوت سامنے آئے ۔ خود شیرانی صاحب نے اپنے نظریے کی تائید میں بہت سی شہادتیں پیش کیں اور بتایا کہ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں گہری وابستگی اور بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے۔ اس لئے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اردو کی ابتداء پنجاب سے ہوئی۔ 

اپنے نظریے کی تائید میں پروفیسر محمد شیرانی نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ مسلم حکمران چونکہ پنجاب کے راستے ہندوستان میں داخل ہوئے۔ ان حکمرانوں نے اس علاقے میں بھی اپنی اپنی ریاستیں قائم کیں۔ اس ضمن میں محمود غزنوی کا نام سر فہرست ہے۔ محمود غزنوی نے پنجاب میں ایک زبردست ریاست قائم کر کے لاہور کو اس کا دارالخلافہ بنایا۔ اس طرح مسلمانوں کے یہاں قیام سے یہ فطری امر ہے کہ ان کا مقامی باشند وان سکتے ساتھ میل جول ہوا ہو گا۔ آپس میں معاشرتی روابطہ بھی قائم ہوئے اوریا گے ۔ ظاہر ہے ان میل جول اور معاشرتی روابط کی بدولت فارسی اور ترکی کے الفاظ پنجابی میں شامل ہوئے ہوں گے۔ 

مسلمانوں کے ایک طویل عرصے تک یہاں حکمرانی کرنے سے پنجابی متاثر ہوئی۔ خود پروفیسر شیرانی کا بیان ملاحظہ ہوں غزنویوں کے قبضے میں تمام پنجاب سندھ اور ملتان تھا۔ ہانسی سرعتی اور میرٹھ تک ان کے قبضے میں تھے بلکہ یوں کہئے کہ وہ دہلی کے قریب تک پھیلے ہوئے تھے۔ اتنے بڑے علاقے کی مالی ویکی انتظام کنے لئے عمال کو اس ملک کی زبان سیکھنی ضروری تھی۔ چونکہ لا ہور ہند کا دارالسلطنت تھا۔ اس لئے ظاہر ہے کہ اس خطے کی زبان کو اس عہد کی حکومت اور مسلمانوں نے ترجیح دی ہوگی۔ یہ خیال کرنا کہ جب تک مسلمان پنجاب میں آباد رہے انہوں نے کسی ہندی زبان سے سروکار نہ رکھا اور جب پنجاب سے دینی گئے تہب ، برج بھاشا اختیار کی ایک نا قابل قبول خیال ہے"۔

دوسری بات اس ضمن میں شیرانی صاحب یہ کہتے ہیں کہ علماء اور صوفیاء نے بھی تبلیغ دین کی خاطر یہاں اپنے مراکز قائم کر کے تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی تبلیغ کی بدولت مقامی باشندوں نے اسلام قبول کیا اور وہ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس کا جی انقلاب کا اثر بھی یہاں کی مقامی زبان پر پڑا۔ 

اس طرح جہاں مسلمان فاتحین نے یہاں پر آباد ہو کر یہاں کی مقامی زبان کو بول چال کے لئے اختیار کیا وہاں مسلم علما و صوفیا ء نے بھی اسی زبان کو بانی کے لئے ذریعہ اظہار بنایا۔ لہذا اس بنا پر غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان عربی فاری اور ترکی کے ساتھ ساتھ ایک ہندی زبان کے خدو خال نکھرنے لگے۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)