سرشار بحثیت ناول نگار

Educational Site
0

سرشار بحثیت ناول نگار رجب علی بیگ سرور 


سرشار اردو کے پہلے ناول نگار ہے جنہوں نے خود اپنے ناول نگار ہونے کا دعوی کیا ہے فسانہ آزاد کا دنیا بچہ پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں ناول کا کیا تصور تھا۔ 

سرشار نے عربی فارسی کے علاوہ انگریزی زبان سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ اور انھیں انگریزی زبان میں کبھی ناول نگاری کا بخوبی ادراک تھا۔ 

سر شار نے اپنے اس ناول میں لکھنوی تہذیب وتمدن کو تو بیان ہی ہے اُن کے کردار لکھنے کی معاشرے کے نمائندہ کردار
لیکن انکی مبالغہ آرائی سے واقعات کی نوعیت اور افراد کی فطرت اسے قریب جا پہنچی ہے جیسا کہ سرور کی داستان میں نظر آتی ہیں ۔ 

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرشار قدیم اور جدید کے درمیان کھڑے ہیں اور وہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سرشار کو فطرت نے ناول نگاری کی نوعیت قدرتی طور پر ادا کی تھی۔ شاہدہ کی و سقت - 

انسانی واقعت سے آگاہی تہذہب مسائل سے دسترس تنظر و مذیعہ کا خوبصورت اور دلچسپ انداز بیان یہ وہ خصوصیات ہیں جو قدرت نے ادا کی تھی۔ اردو کے اولین ناول نگاروں میں ڈپٹی نذیر احمد نے اصلاحی مقصد کے تحت کہانیاں لکھی۔

سرشار اور لکھنؤ معاشرت

لیکن سرشار لکھنو میں رہنے والے تھے لکھنوی تہذیب و تمدن سے آگاہ تھے۔ اور سر شار کو مرقع نگاری میں کمال حاصل تھا ۔ انہوں نے لکھنؤ نے مٹتے ہوئے کامیاب تصویر کشی کی۔ 

وہ لکھنوی معاشرت کی برائیوں پر نہ پردہ ڈالتے ہیں اور نہ خوبیوں کو ابھارتے ہیں وہ جیسا دیکھتے ہیں ویسا ہی بیان کر دیتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ وسیع بھی ہے اور گہر ابھی جزئیات یہ ان کی نظر بہت گہری ہے ۔ 

انہوں نے لکھنو کے نوابوں، روسا اور اپنے مشاغل اور معمولات عادات و فضائل اور ان کی اخلاقی تیزی اور چھوٹی نمائش کے اتنے نقشے کھنچے ہیں کہ قاری اپنے آپ کو اس ماحول میں محسوس کرنے لگتا ہے۔
ہے


سرشار بحثیت ناول نگار


سرشار مذہبی اعتبار سے ہندو مسلک تھے لیکن مسلم معاشرت سے بھی خوبی آگاہ تھے اور نصیب سے انکا دل و دماغ بالکل خالی تھا۔ شوخی اور ظرافت اور سرشار کے ناولوں کا اہم عنصر ہے ان کے ناول(کہانیاں ) بڑے ہونے کے باوجود دیہی کم نہیں ہوتی ۔ 

سر شار خود بڑے زندہ دل انسان تھے۔ انہیں لکھنوی نظام اور معاشرت سے محبت بھی ہے اور ان کے انجام سے مایوس بھی ہیں اور اس ماحول کی مصوری بھی کرتے ہیں۔


اُس معاشرے کی جو عیش اور حوس پرستی میں ڈوبا ہوا تھا ۔ ایک دم توڑتے تمدن اور سوسائٹی سے اخلاقی معیار کی کیا توقع ہو سکتی تھی۔ 

سرشار اس لحاظ سے پہلے ناول نکار ہیں جنہوں نے کردار نگار کی اہمیت کو سمجھا اور بخوبی نبھایا ہے۔

سرشار کے کردار دل چسپ ہے اتنے نسوانی کرداروں میں امیر گھرانوں کی پست طبقے کی باہر نکلنے والے خواتین شامل ہیں افسانہ نگار ناول نگار سرشار کے ہاں کرداروں کی اس قدر پھر مار ہے ۔ 

فسانہ آزاد انسانوں کا جنگل نظر آتا ہے، سرشار نے اعلیٰ اوسط اور ادنی تینوں طبقوں کے اثرات پیش کئے اور کثرت سے پیش کئے۔ ہیں۔ 

انھوں نے زندگی کے مختلف ادوار دیکھنے اور بڑی خوبی سے عکاسی کی مکالمہ نگاری میں بھی۔ سر شار کو خاص ملکہ حاصل ہے ان کے افراد مختلف ہیتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سر شار کو بوری دسترس حاصل ہے ۔ انہوں نے فسانہ آزاد میں خاکروب سے لے کر ہر طبقہ کی زبان استعمال کی ہے۔

انکے تمام کردار خواہ وہ اعلیٰ طبقے سے۔ تعلق رکھتے ہو یا ادنی سے ہر کردار کو بیان کرتے وقت قلم نے پورا پورا حق ادا کیا خاص طور پر تو ان کو بیگماتی زبان پر ان کے پانی تکلف کا شائبہ تک تھیں ۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)