فورٹ ولیم کالج کے اعراض و مقاصد

Educational Site
0

فورٹ ولیم کالج کے اعراض و مقاصد

فورٹ ولیم کالج کے اعراض و مقاصد


تحریک فورٹ ولیم کالج کے محرکات خالصتاً ادبی نہیں بلکہ اس تحریک کے ہیں پشت کچھ سیاسی اعراض و مقاصد کارفرما نظر آتے ہیں۔ اٹھارھویں صدی عیسوی میں ہندوستان انتشار بد نظمی قتل و غارت کا شکار تھا۔ بیرونی حملہ آوروں آس پاس کی سازشوں اور اندرونی ہنگاموں کی وجہ سے دلی کی مرکزی حکومت کمزور ہو چکی تھی اس انتشار اور بدامنی کا فائدہ غیر ملکی تاجروں نے۔ اٹھایا ۔ 

اسی طرح بنگال میں انگریز اور مغربی ساحل پر فرانسیسی باشندے منظم سیاسی طاقت سن کر ہندوستان کے اندرونی معاملات پر اثر انداز ہونے لگے. سیاسی اعتبار سے پلاسی کی جنگ میں کامیابی سے بنگال میں انگریزوں کی طاقت بن گئی۔ سازشوں مداخلت ، مکر و فریب سے کام لیا اور اسے انگریزوں نے بادشاہ شاہ عالم ثانی کو کمزور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ نہ چھوڑی۔

اور آخر میں 1765 میں پہلے ہندوستان کی دولت مند صوبے داری، بنگال، بہار اور اڑیسہ کی عمل داری قائم کرلی . میں مال گزاری وصول کرنے کا اختیار حاصل کیا اور پھر بنگال ہر عہد نامے کی رو سے انگریزوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز ہندوستان میں تاجروں کے روپ میں آئے تھے اور انھوں نے آخری وقت تک ہندوستان کو ایک تجارتی مرکز تصور کیا تھا۔ 

تاجروں جیسا سلوک اور صرف اپنے منافع پر نظر رکھی . لیکن رفتہ رفتہ ان تاجروں نے ہندوستان پر حکمرانی کا خواب دیکھنے لگے۔ ابتدا میں ان لوگوں نے خاموشی اور سکون کی حکمت عملی اختیار کی اور اپنے تجارتی مفادات کو ملحوظ نظر رکھا لیکن ہندوستان میں۔ کی سیاسی حالات پر نظر ساتھ رکھ کر اقتدار پر قبضہ جمانے میں دیر نہیں کی. میٹھے بول سے ہندوستان میں انگریزوں نے اعتدال پسند، نیک مزاج اور مہربان حاکم کا تصور پیدا کرنے کی کی اور یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم رواداری ، مساوات اور انصاف کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اسی طرح انگریز نے فوائد کا یقین دلا کر ریگولیٹنگ ایکٹ کا سہارا لے کر بر سر اقتدار آئے انہوں نے پھر ہندوستانی تہذیب حالات واقعات پر گہری نظر رکھی اور یوں اپنے مقاصد و اعراض کے لیے۔ سکرت اور عربی زبان کے لیے ادارے کھولے ہندوستانی ثقافت کی تفہیم کے لیے 1780 میں مدرسہ عالیه کلکتہ کی بنیاد رکھی.

ٹیپو سلطان کی شہادت سے انگریزوں کے قدمیں جمنے لگے اور مستقبل حکمرانی کے لیے اور اس مقاصد کے حصول کے لیے لارڈ ولزلی کو ہندوستان کا پیچھا گیا۔

فورٹ ولیم کالج کا ایک اور مقصد فارسی زبان کی حاکمیت کو کم کرنا تھا اور مسلمانوں کو اپنے ثقافتی محور سے ہٹانا تھا. فارسی زبان مغل بادشاہوں کی دوباری زبان تھی ۔ یوں ولزلی نے اردو اور فارسی زبان کے درمیان اختلاف کو چھوڑ کر حکمت عملی سے ہندی ، اردو اور بنگالی کو رنگ رنگ خطوں میں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔


فورٹ ولیم کالج کے قیام کا ایک اور مقصد تصنیفات کے ذریعے ہندوستانی لوگوں کے دلوں میں انگریز حکمرانوں اور حکومت کی شان و شوکت ،ہمدردی، علم دوستی کا نقش بھی قائم کرنا تھا ۔ اسی طرح مصنفوں نے . کتابوں کے دیباچوں میں انگریز حکومت ، لارڈ ولزلی اور گلگر سیٹ کی قصیدہ گوئی میں کوئی کسر اٹھا نہیں لکھی۔ مندرجہ بالا تمام بحث سے پتہ چلتا ہے کہ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے تمام اسباب سیاسی تھے۔ لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے ادب کو بھی متاثر کیا اور اردو نثر کے فروغ کا سبب بنا۔


کالج کا قیام


لارڈ ولزلی کا منصوبہ 10 جولائی 1800 کو منظور ہوا لیکن اس پر 4 مئی 1000 کی تاریخ ڈالی گئی ہے. 4 مئی کو سرنگا پٹم کی جنگ میں ٹیپو سلطان کو شکست ہوئی تھی اور ولزلی اس تاریخ کو انگریزی ہندوستان کی تاریخ میں رقم کرنا دینا چاہتا تھا. کیونکہ اسی دن یہ فیصلہ ہوا تھا کہ آئندہ ہندوستان پر حکمرانی صرف انگریز کی ہوگی اور اسی دن یہ ضروری سمجھا گیا کہ ان لوگوں پر حکمرانی کرنے کے لیے ان لوگوں کی زبان اور ان لوگوں کی رسم ورواج کو سمجھی اس لیے اس کی ضرورت ہے. یہ کالج فورٹ ولیم نام کے قلعے میں قائم ہوا اس لیے فورٹ ولیم کالج کہلاتا ہے۔ 

لارڈ ولزلی اس کالج میں بہت سے شعبے قائم کیسے اور لائق استادوں کا انتخاب کیا. کالج میں ہر شعبے کا نگراں استاد (پروفیسر) انگریز ہوتا تھا ۔ شعبہ ہندوستانی کا پہلا پروفیسر خود ڈاکٹر جان گلکرسٹ مقرر ہوا. اس کالج میں ایک لائبریری بھی قائم ہوئی جس میں مطبوعات اور قلمی کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا گیا۔ جان گلکرسٹ نے بڑی محنت سے اس حوالے سے کام کیا زبان سیکھی اور کئی کتابیں لکھی ایک جگہ لکھتے ہیں. کہتے ہیں کہ

جس گاؤں میں گیا وہاں کے لوگوں نے جو ساتھ دیا یعنی جس شہر میں میں گیا ادبی ذوق کے حوالے سے وہاں میں نے اس زبان (یعنی اردو ادب اردو زبان کو مقبول پایا"

فورٹ ولیم کالج جب شروع ہوا اور اردو پڑھانے کا وقت آیا تو ایک دشواری سامنے آئی اور معلوم ہوا کہ اردو میں ایسی کتابیں موجود نہیں جو کالج میں پڑھائی جاسکیں ۔ اب ان اہل قلم کی ضرورت تھی جو کتابیں لکھنے۔ کا کام انجام دے سکیں اس ضرورت کی بناء پر اشتہاری جاری کر دیئے۔ 

اس طرح گا کر سیٹ کی کوشش اور محنت کی وجہ سے سارے ملک کے ایسے اہل قلم جمع ہو گئے جو کتابیں لکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں چند مشہور مصنفین کے نام یہ ہیں. میر امن ، میر شیر علی افسوس، مرزا علی لطف ، میر بہادر علی حسینی، میر حیدر بخش جیوری کاظم علی جوان، جنہاں چند لاہوری ، اللو لال جی، اور بینی نظام این جہاں شامل ہیں . 

کتابیں تیار ہونے لگیں تو انھیں چھاپنے کے لیے کتب خانہ اور پر میں قائم کیے گئے گلکرسٹ کی سفارش پر کالج میں قصہ خواں ملازم رکھے گئے جو نو دارد انگریزوں کو آسمان زبان میں قصے سناکر اردو۔ کا ذوق بھی پیدا کرتے تھے اور انہیں لفظوں کی درست تلفظ کی ترتیب بھی دیتے تھے عرض اردو کے اس محسن نے اردو زبان و ادب کے فروغ یعنی ارتقائی مراحل کے لیے کوئی مشکل اٹھا نہ رکھا. بقول اس کے بارے میں اردو نثر نگار مولوی عبدالحق،کہتے ہیں کہ جو اصانی ولی نے اردو شاعری پر کیا تھا وہی احسان جو کیا تھا کیا گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا ہے"


اس میں شک نہیں کہ گلکرسٹ نے کالج کے طلبہ کی تعلیمی ضروریا کو پورا کرنے کے لیے زیادہ تر کلاسیکی زبانوں کی مشہور اور مقبول کتابوں کو سی اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی. گلکرسٹ سے پہلے اردو نثر کی باقاعدہ روایت موجود نہ تھی پہلے اگر نثری زبان تھی بھی تو بوجھل اور مقفیٰ و مسجے اور غیر فطری تھی۔ فورٹ ولیم کالج کے مصنفین نے سادگی اور سلامت کا راستہ اختیار کیا .

فورٹ ولیم کالج کی خدمات


فورٹ ولیم کالج کے مصنفوں نے سادگی اور سلامت کے ایسے نمونے پیش کئے جو اس کے پہلے موجود نہ تھے۔ لفظی ترجمے پر زور نہیں دیا بلکہ اور مفہوم کو اردو کا جامہ پہنانے کی کوشش کی لفظوں کے تراش و خراش میں یہ مصنفین آزاد تھے ان کے تراجم میں زبان لڑکھڑانے کے بجائے رواں دواں نظر آتی ہے. فورٹ ولیم کالج کے مضمون نے اردو کو سانس لینے کا موقع دیا۔ اور ان کی خوبیوں اور انفرادیت کو ظاہر کردی . عوامی دلچسی کو ملحوظ نظر رکھ کر قصہ و کہانی کا روپ دھار لیا. بے شمار داستانوں کے تراجم کر کے ہوں داستانوی ادب میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا .

چنانچہ یہ دیا جا سکتا ہے کہ داستان نگاری کا ارتقاء فورٹ ولیم کالج سے ہوئی ۔ فورٹ ولیم کالج کے خدمات میں اصل کردار مکرسٹ کا ہے بنیادی طور پر ادب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ذاتی کوشش سے اردو زبان سیکھنا شروع کی. ارد و قواعد 100 و زبان کے حوالے سے کئی کتابیں لکھیں اور ان کی اشاعت سے گھل کرسٹ ہندوستانی زبان کے ماہر کہلانے لگے۔ ان لوگوں کی محنت اور کوشش نے کالج کو ادب کا مرکز بنا دیا اور اردو نثر کی اولین تحریک اسی کالج سے رونما ہوئی .


فورٹ ولیم کالج کا شمار اردو ادب کی متحرک، جان دار اور توانا تحریکوں میں ہوتا ہے. اس تحریک نے اردو ادب کے جمود کو توڑنے کی کوشش کی اور اور تخلیقی میدان میں بیش قیمت اضافے کئے. لسانی اعتبار سے انفرادیت کو ظاہر کر دی مشکل گوئی و ادق نگاری سے نجات دلادی . فورٹ ولیم کالج کے دور میں اردو ٹائپ کے فروغ اور چھا ہے خانے کے نصب ہو جانے سے اشاعت کتب کی رفتار تیز ہوگئی چنانچہ پہلا لکھا ہوا لفظ چند لوگوں تک پہنچا اب ہزار لوگوں تک پہنچتا ۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)