داغ دہلوی اردو ادب کا مایہ ناز شاعر

Educational Site
0

داغ دہلوی اردو ادب کا مایہ ناز شاعر 

Dagh Dehalvi


نواب مرزا نوراللہ محمد نوری، جنہیں داغ دہلوی کے نام سے جانا جاتا ہے، اردو کے ایک مشہور شاعر، نثر نگار اور نقاد تھے۔ وہ 21 دسمبر 1807 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور 5 اگست 1877 کو انتقال کر گئے۔ داغ دہلوی کی مقبول ترین شاعری اردو ادب کے لیے لاجواب بے نظیر شاعری سمجھی جاتی ہیں۔

خاندان اور تعلیم: تعلیمی معلومات 

داغ دہلوی ایک اشرافی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، مرزا قاسم علی خان، مغل شہنشاہ اکبر ثانی کے دربار میں ایک اعلیٰ عہدہ دار تھے۔ داغ دہلوی کو فارسی، عربی اور اردو زبانوں کی تعلیم گھر پر ہی مل گئی۔


داغ دہلوی اردو ادب کا مایہ ناز شاعر


ادبی کیریئر: داغ دہلوی کا مستقبل 

داغ دہلوی نے اپنے ادبی کیریئر کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ وہ جلد ہی ایک مشہور شاعر بن گئے اور ان کی غزلیں اپنے خوبصورت اشعار، رواں زبان اور جذبات کے اظہار کے لیے مشہور ہوئیں۔ انہوں نے دیگر اصناف میں بھی لکھا، بشمول قصیدہ، مثنوی، نثر اور تنقید۔

داغ دہلوی کی مقبول ترین شاعری: 

داغ دہلوی کی شاعری رومانوی اور جذباتی ہے۔ اس میں محبت، حسن، فراق اور درد و غم جیسے موضوعات پر غور کیا گیا ہے۔ ان کی زبان سادہ اور رواں ہے اور ان کے اشعار اپنے خوبصورت استعاروں اور تشبیہوں کے لیے مشہور ہیں۔

داغ دہلوی کی نثر: اردو ادب میں اردو نثر نگاری 

داغ دہلوی ایک باصلاحیت نثر نگار بھی تھے۔ انہوں نے مضامین، خاکے اور سفرنامے لکھے۔ ان کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح رواں اور پرجوش ہے۔

داغ دہلوی کی تنقید: شہرت یافتہ کتب نگاری 

داغ دہلوی ایک مشہور اردو نقاد بھی تھے۔ انہوں نے شاعری، نثر اور فنون لطیفہ پر کئی تنقیدی مضامین لکھے۔ ان کی تنقید بصیرت افروز اور معلوماتی ہے اور اس نے اردو ادب پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

داغ دہلوی کی وراثت: داغ دہلوی کی آباؤ اجداد 

داغ دہلوی اردو ادب کے ایک اہم ستون ہیں۔ وہ اپنی شاعری، نثر اور تنقید کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے اردو زبان اور ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

داغ دہلوی کی کچھ مشہور تصانیف: جن کی وجہ سے شہرت ملی ہیں۔

گلزار داغ (غزلیں)
ساقی نامہ (مثنوی)
نقش داغ (نثر)
انتخاب داغ (تنقید)
داغ دہلوی کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق: ملاحظہ فرمائیں 


داغ دہلوی اردو ادب کا مایہ ناز شاعر


داغ دہلوی کو "شاعرِ دہلی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
وہ ایک ماہر قوال بھی تھے اور اکثر اپنے اشعار کو خود پڑھتے تھے۔
وہ اردو کے پہلے شاعر تھے جن کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔
انہیں 1870 میں برطانوی حکومت نے "خان بہادر" کا لقب دیا تھا۔
داغ دہلوی کی وفات:

داغ دہلوی کا انتقال 5 اگست 1877 کو دہلی میں ہوا۔ وہ 70 سال کے تھے۔ انہیں دہلی کے جامع مسجد کے قریب دفن کیا گیا۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)